Pages

Saturday 23 April 2016

افسانہ


ماں ـــــــــ (گیان پرکاش وویک کا ایک مختصر افسانہ)
بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔ جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: ’’میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا‘‘۔تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی۔نو روپے جاچکے تھے۔ یوں نو روپے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔۔۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہواس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔
کچھ دن گزرے۔۔۔ ماں کا خط ملا۔ پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔ ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا، لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا! ماں نے لکھا تھا:
’’بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپے کا منی آرڈر ملا۔۔۔تو کتنا اچھا ہے رے۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا‘‘۔ میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟
کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ۔ بڑی مشکل سے پڑھ سکا: ’’بھائی نو روپے تمہارے اور اکتالیس روپے اپنے ملا کر میں نے تمہاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔ فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا! وہ کیوں بھوکی رہے؟‘‘
(تمہارا جیب کترا)
مکمل تحریر >>

چودھویں کی رات



کل چودھویں کی رات تھی آباد تھاکمرہ ترا
ہوتی رہی دھک دھک دھنا، بجتا رہا طبلہ ترا
شوہر، شناسا، آشنا، ہمسایہ، عاشق، نامہ بر
حاضر تھا تیری بزم میں ہر چاہنے والا ترا
عاشق ہیں جتنے دیدہ ور، تو سب کا منظورِ نظر
نتھا ترا، فجّا ترا، ایرا ترا، غیرا ترا
اک شخص آیا بزم میں، جیسے سپاہی رزم میں
کچھ نے کہا یہ باپ ہے، کچھ نے کہا بیٹا ترا
میں بھی تھا حاضر بزم میں، جب تو نے دیکھا ہی نہیں
میں بھی اٹھا کر چل دیا بالکل نیا جوتا ترا
یہ مال اک ڈاکے میں کل دونوں نے مل کرلوٹا ہے
انصاف اب کہتا ہے یہ، آدھا مرا، آدھا ترا
** دلاور فگار
مکمل تحریر >>